Story of Prophet Adam حضرتِ آدم عَلَیْہِ السَّلَام

Table of Contents

story-of-prophet-adam-حضرتِ-آدم-عَلَیْہِ-السَّلَام

اللہ تعالی نے انسانیت کو سیدھی راہ دکھانے کے لئے بہت سے نبی اور رسول  بھیجے جن کی صحیح تعداد صرف اللہ
عز وجل ہی کو معلوم ہے البتہ چند انبیاء بی کا ذکر هللا عز وجل نے قرآن مجید اور رسول اکرم علی ایم نے احادیث مبارکہ
میں کیا ہے ان میں سے پہلے نبی حضرت آدم ہے۔

:حضرتِ آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی پیدائش

مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا “حضرت آدم علی کی تخلیق سے تقریباً 2 ہزار سال پہلے اللہ تعالی نے زمین پر جنوں کو آباد کیا۔ جب

جنات زمین میں فساد پھیالنے اور آپس میں قتل و غارت کرنے لگے تو اللہ تعالی نے (ابلیس )شیاطین کے باپ کو فرشتوں کی معیت میں بھیجا کہ

جنات کو سمندروں اور جزیروں کی طرف بھگا دو۔ ابلیس نے فرشتوں کو ساتھ لے کر جنات کو سمندروں اور جزیروں کی طرف بھگا دیا۔ مستدرک

حاکم( ابلیس )شیاطین کا باپ خود بھی جنات کی نسل میں سے تھا لیکن کثرت عبادت کی وجہ سےاللہ  تعالی نے اسے فرشتوں کا سردار بنا دیا۔

فرشتوں کا سردار بننے کی وجہ سے ابلیس میں غرور اور تکبر پیدا ہو گیا۔ اس نے یہ سمجھا کہ مجھے آسمان و زمین میں اتنا بڑا مقام اس لئے مال ہے

کہ میں اللہ تعالی کے نزدیک تمام مخلوقات سے افضل ہوں ۔ اللہ تعالی کو اس کا غرور اور تکبر پسند نہیں آیا اور اسی وقت اللہ تعالی نے فرشتوں

کے سامنے ایک ایسی مخلوق کو پیدا کرنے کا اظہار فرمایا جو زمین میں اللہ تعالی کی نیابت قائم مقامی  کرے۔

 :فرمان الہی

: ترجمہ

اے پیغمبر وہ وقت یاد کیجئے جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا کوئی خلیفہ ,نائب بنانے والا ہوں ۔ فرشتے زمین میں جنات فساد اور : خون ریزی دیکھ چکے تھے انہوں فرشتوں نے حکمت معلوم کرنے کے لئے  کہا اے اللہ کیا آپ زمین میں ایسی مخلوق کو اپنا نائب بنانا چاہتے ہیں جو زمین میں فساد پھیالئے اور خوں ریزی کرے؟ جبکہ ہم آپ کی حمد کے ساتھ تسبیح اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا : جو حکمت  میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے (البقرہ 2 : آیت )30 پھر اللہ عز وجل نے اپنی چاہت کو عملی جامہ پہناتے ہوئے حضرت آدم کا پتلا اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ( فرمان الہی ہے  ) ترجمہ اللہ نے فرمایا : اے ابلیس، جسے  آدم کو میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ہے اسے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے روکا ؟ )ص 38 : آیت 75

احادیث رسول اکرم : قیامت کے دن اہل ایمان جمع ہو کر آدم کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں، اللہ تعالی نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا فرشتوں سے آپ کو سجدہ کروایا اور آپ کو چیزوں کے نام سکھائے ۔ آپ اپنے رب کے سامنے ہماری سفارش کیجئے تاکہ ہمیں اس مصیبت میدان محشر کی ہولنا کیوں سے نجات مل جائے۔ : آپ علیہ فرمائیں گے آج اللہ تعالی بہت غصے میں ہیں آج سے پہلے کبھی اتنے غصے میں نہیں آئے تھے اور نہ ہی بعد میں آئیں گے۔ اللہ نے مجھے درخت کے پاس جانے سے منع کیا تھا لیکن مجھ سے غلطی ہو گئی ۔ لہذا آپ کسی اور کے پاس چلے جاؤ ۔ ) بخاری عن انس بھی ( سب سے افضل دن جمعہ کا ہے ، اسی دن آدم کو پیدا کیا گیا، اسی دن انہیں 2  جنت میں داخل کیا گیا، اسی دن جنت سے نکاال گیا اور اسی دن قیامت قائم ہوگی ۔” ) مسلم عن ابی ہریرہ 

اللہ سبحانہ و تعالی نے آدم علیہ کی شکل وصورت بنانے کے بعد جب تک چاہا انہیں ڈھانچہ کی صورت میں( پڑا رہنے دیا ۔ ابلیس )شیاطین کا باپ  آدم علی کے پاس چکر لگاتا رہتا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ یہ جسم اندر سے کھوکھال ہے تو اس نے اندازہ کر لیا کہ یہ ایسی مخلوق ہے جو اپنے نفس پر قابو نہیں رکھ سکے گی ۔ مسلم عن انس  اللہ سبحانہ و تعالی نے آدم کو پوری زمین سے جمع کی گئی مٹھی بھر خاک مٹی سے پیدا فرمایا۔ اسی وجہ سے  آدم کی اولاد بھی  مختلف رنگوں کی  مٹی کے مطابق پیدا ہوتی ہے۔ ان میں سفید، سرخ، سیاہ اور درمیانی رنگوں کے بھی ہیں۔ اسی طرح نیک اور بد، نرم خو اور سخت طبیعت اور درمیانی طبیعت والے ہیں ۔ مسند احمد عن ابی موسی اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو جمعہ کے دن اپنے ہاتھ سے انسانی صورت میں پیدا فرمایا تا کہ ابلیس اپنی بڑائی کا دعوی نہ کر سکے ۔ اس کے بعد کچھ مدت تک مٹی کے بنے ہوئے ایک جسم کی صورت میں پڑا رہنے دیا۔ فرشتے اور ابلیس اسے دیکھ کر خوف زدہ ہوتے ۔ ابلیس گزرتے ہوئے اسے ٹھوکر مارتا جس کی وجہ سے ایسی آواز پیدا ہوتی جس طرح مٹی کے بنے ہوئے برتن سے کسی چیز کے ٹکرانے کے بعد پیدا ہوتی ہے اس لئے وہ کہتا تھا۔ فرمان الہی ہے

ترجمہ : اللہ نے انسان کو ٹھیکری جیسی بجنے والی مٹی سے پیدا کیا ۔ الرحمن 55 : آیت )14( ا بلیس ایک مرتبہ موقع پا کر حضرت آدم علیہ السلام کے منہ کی طرف سے بدن میں داخل ہوا اور دوسری طرف سے نکل گیا اور فرشتوں سے کہنے لگا : “ اس سے مت ڈرو ، یہ ) آدم علیہ السلام( اندر سے بالکل کھو کھال ہے اگر مجھے اس پر قابو پانے کا موقع مال تو میں اسے ضرور گمراہ کروں گا۔ )تفسیر الطبری االنبياء 21 : آیت )37

فرشتوں کو اولاد آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی خونریزی کا علم کیسے ہوا

فرشتے زمین پر جنات کے آپس کے لڑائی جھگڑوں اور خونریزی کو دیکھ چکے تھے اس کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے اوالد آدم کے بارے میں بھی یہ خدشہ ظاہر کیا کہ یہ بھی آپس میں خونریزی کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔ قتادہ اہم ہللا نے فرمایا: ” فرشتے حضرت آدم سے پہلے زمین پر آباد ہونے والے مخلوقات کے حاالت دیکھ چکے تھے ۔” َو ُم هَّللا ) تفسیر ابن کثیر، البقرہ 2 : آیت 30( ُ ْعلَ َأ ال َّصَوا ِب َأ ِ ب ) ترجمہ ( اللہ تعالی اصل حقیقت کو خوب جانتے ہیں ۔

حضرتِ آدم عَلَیْہِ السَّلَام کوخلیفہ بنانے کی مصلحت

جب اللہ تعالی نے فرشتوں کو ایک نئی مخلوق پیدا کرنے کی خبر دی تو انہوں نے اس نئی مخلوق کو پیدا کرنے کی مصلحت معلوم کی تو اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا

ترجمہ بالشبہ میں وہ باتیں جانتا ہوں جن کا تمہیں علم نہیں ۔ البقرہ 2 : آیت 30  یعنی میں اس نئی مخلوق میں نبی ، رسول ، عابد ، صدیق ، شہید ، زاہد، ولی، با عمل علما اور صلحا پیدا کروں گا۔ رسول اکرم اسلام نے فرمایا : جب فرشتے فجر کے وقت بندوں کے اعمال لے کر آسمان پر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالی جاننے کے باوجود ان سے پوچھتے ہیں کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ جب ہم گئے تھے ، وہ نماز )عصر( میں مصروف تھے اور جب واپس آئے تب بھی وہ نماز ) فجر ( میں مصروف تھے۔” ) بخاری ۔ عن ابی ہریرہ علی ( یعنی فرشتوں کو جس مصلحت و حکمت کی جستجو تھی وہ انہیں انسان کے عبادت میں مصروف ہونے کی صورت میں دکھائی جاتی ہے۔

:فرشتوں کاحضرتِ آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے لئے سجدہ

اللہ سبحانہ و تعالی نے حضرت آدم  کے جسم میں روح پھونکنے سے پہلے ہی فرشتوں کو اس بات کا پابند کر دیا تھا کہ جیسے ہی میں آدم علیہ  سبحانہ و تعالی نے حضرت آدم  کے جسم میں روح پھونکنے سے پہلے ہی فرشتوں کو اس بات کا پابند کر دیا تھا کہ جیسے ہی میں آدم علیہ  اسلام کی تخلیق مکمل کر کے اس میں روح ڈال دوں تو تم ان کے سامنے سجدہ تعظیمی  میں گر جانا۔ جب اللہ سبحانہ و تعالی نے حضرت آدم علیہ السالم کی مکمل شکل وصورت بنانے کے بعد اس میں روح ڈال دی تو فرشتے اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے فورا حضرت آدم علی نام کے سامنے سجدہ میں گر گئے ۔ ً

 

 

فرمان الہی ہے : ۔ ترجمہ  اور یاد کیجئے جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں انسان کو کالی، سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کرنے واال ہوں۔ لہذا جب میں اسے پورا بنا لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ ریز ہو جانا۔ پس تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ۔  الحجر 15 : آیات 28 تا 30( رسول اکرم نے فرمایا : جب حضرت آدم علی میں روح ڈال دی گئی تو انہیں چھینک آئی جس پر انہوں نے اْ کے لئے جو تمام جہانوں کا رب ہے  کہا  تعالی نے جواب میں َ آپ پر رحم کرے فرمایا ” صحیح ابن حبان عن انس علی هللا

:حضرت آدم کے نام کی عزت و تکریم اور فرشتوں پر فضیلت

حضرت آدم کی عزت و تکریم کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے انہیں اپنے مبارک ہاتھوں سے تخلیق فرمایا اور فرشتوں سے سجدہ کروا کر آپ کی خوب عزت افزائی فرمائی ۔

فرمان الہی ہے:حضرتِ آدم عَلَیْہِ السَّلَام

ترجمہ: جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس )شیطان کے عالوہ سب فرشتوں نے سجدہ کیا اس ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور تکبر کیا ۔” البقرہ 2 : آیت 34

:ابلیس کا حضرت آدم علی اسلام کو سجدہ کرنے سے انکار

جب اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم کو سجدہ کرو تو تمام فرشتوں نے اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل میں سجدہ کیا اابلیس چونکہ کثرت عبادت کی وجہ سے فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا لہذا اسے بھی فرشتوں کے ساتھ حضرت آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا مگر ابلیس حضرت آدم کی عزت و فضیلت کو دیکھ کر حسد کرنے لگا اور تکبر کرتے ہوئے انہیں سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اللہ رب العزت نے اس سے سجدہ نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا : ۔ میں آدم سے بہتر ہوں ۔

فرمان الہی ہے :۔

ترجمہ : اللہ تعالی نے فرمایا :  اے ابلیس تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا، جب کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا ؟ اس )ابلیس نے کہا : میں اس  آدم سے بہتر ہوں، آپ نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا ہے ۔ االعراف 7 : آیت )12 ” پس تمام فرشتوں نے سجدہ کیا۔ سوائے ابلیس کے ، اس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا۔ اللہ نے پوچھا : اے ابلیس، تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا ؟ اس ابلیس نے کہا کہ میں ایسے انسان کو سجدہ نہیں کر سکتا جسے آپ نے کالی ، سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے ۔” الحجر 15 : آیات 30 تا 33مزید تفصیل کے لئے پڑھئے ترجمہ و تفسیر بنی اسرائیل 17 : آیت 61 اور ص 38 : آیت 76

:ابلیس کا تکبر اور اس کا انجام

جب ابلیس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہوئے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تو اللہ رب العزت نے اس کا مقام و مرتبہ چھین کر قیامت تک کے لئے اسے ملعون و مردود قرار دے کر جنت سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔

فرمان الہی ہے : ۔

ترجمہ اللہ نے  فرمایا :اے ابلیس تو یہاں جنت سے نکل جا، بے شک تو مردود ہے۔ بال شبہ قیامت کے دن تک تجھ پر میری لعنت برستی رہے گی ۔ المجر 15 : آیات  34 , 35   اللہ نے فرمایا : تو یہاں )جنت( سے اتر جا ، اس لئے کہ تجھے کوئی حق نہیں کہ تو یہاں )جنت میں رہ کر تکبر کرے۔ لہذا تو نکل جا۔ بے شک تو ذلیلوں میں سے ہے۔” االعراف 7 : آیت )13( اللہ نے فرمایا کہ یہاں سے ذلیل و خوار ہو کر نکل جا۔ لہذا ان )انسانوں میں سے جو بھی تیرا کہنا مانے گا میں ضرور تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔ )االعراف 7 : آیت 18( حدیث رسول اکرم : جب ابن آدم ) قرآن مجید میں سے  سجدہ والی آیت تالوت کرنے کے بعد سجدہ کرتا ہے تو شیطان ایک طرف ہو کر رونے لگتا ہے اور کہتا ہے : ہائے افسوس، ابن آدم کو سجدہ کرنے کا حکم ہوا تو اس نے سجدہ کر لیا اس لئے اسے جنت ملے گی۔ مجھے سجدہ کرنے کا حکم ہوا تو میں نے انکار کیا اس لئے مجھے جہنم ملے گی ۔ مسلم عن ابی ہریرہ

:حضرت آدم کی فرشتوں پر علمی برتری

حضرت آدم کو اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ سے تخلیق فرما کر بلند مرتبہ عطا کیا اور فرشتوں سے سجدہ کروا کر آپ کے شرف و منزلت پر مہر تصدیق لگا دی پھر آپ کو مختلف چیزوں کے نام سکھا کر فرشتوں پر علمی برتری ثابت کی۔ جب اللہ عز وجل نے وہی نام فرشتوں سے پوچھے تو فرشتوں نے عرض کیا : “ہمیں تو صرف وہی علم ہے جو آپ نے ہمیں عطا کیا ہے ۔

 فرمان الہی ہے :۔

ترجمہ  اور اللہ نے آدم علیہ کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیئے پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ مجھے ان چیزوں کے نام بتاؤ ، اگر تم سچے ہو۔ ان سب نے کہا : اےاللہآپ کی ذات ہر عیب سے( پاک ہے ، ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا آپ نے ہمیں سکھایا ہے ، بے شک آپ کامل علم رکھنے ، حکمت والے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ اے آدم ، انہیں فرشتوں کو  ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ جب انہوں  آدم  نے انہیں ان چیزوں کے نام بتا دیئے تو اللہ نے فرمایا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں ہی زمین و آسمان کا غیب ) چھپی ہوئی باتیں  جانتا ہوں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کر رہے ہو اور جو کچھ چھپا رہے ہو ۔ ”  البقرہ 2 : آیات 31 تا 33

:حضرت حوا علی کی پیدائش اور جنت میں رہنے کا حکم

حضرت حوا  کی پیدائش سے پہلے حضرت آدم اکیلے تھے، ان کا کوئی ہم جنس نہیں تھا۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے ان کی دلجوئی اور تسکین کے لئے ان ہی کے جسم میں سے بائیں طرف کی چھوٹی پسلی سے حضرت حوا السلام کو پیدا فرمایا اور ان کی بیوی بنا کر انہیں جنت میں رہنے کا حکم دیا۔

فرمان الہی ہے : ۔

ترجمہ  وہی اللہ  ہے جس نے تمہیں ایک جان آدم علیہ السلام سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی تاکہ وہ اس بیوی سے سکون حاصل کرے ۔ العراف 7 : آیت )189( ہم نے کہا : اے آدم، آپ اور آپ کی بیوی  حوا جنت میں رہو۔البقرہ 2 : آیت 35

:احادیث رسول اکرم سے تقدیم

عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آؤ کیونکہ وہ  ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اگر تم اس پہلی کو سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ بیٹھو گے ۔  بخاری مسلم ۔ عن ابی ہریرہ  حضرت آدم سو رہے تھے کہ اللہ عز و جل نے اسی حالت میں ان کی بائیں طرف کی چھوٹی پسلی سے حضرت حوالی کو پیدا فرمایا  تفسیر الطبری عن ابن عباس

:ابلیس کی انسان سے دشمنی

جب اللہ سبحانہ و تعالی نے آدم  اور حوا کو عزت و اکرام سے نوازتے ہوئے جنت میں رہنے کا حکم دیا تو شیطان کو انسان کی یہ عزت و تکریم برداشت نہ ہوئی ۔ اس نے اسی وقت سے ہی انسانوں کو گمراہ کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ انسان سے دشمنی کے لئے اس نے اللہ تعالی سے مہلت طلب کی، اللہ عز وجل نے اسے قیامت تک کے لئے مہلت دے دی۔

فرمان الہی ہے : ۔

ترجمہ اس شیطان  نے کہا : اے اللہ چونکہ آپ نے مجھے گمراہ کر دیا ہے اس لئے میں ان  انسانوں کو گمراہ کرنے کے لئے آپ کی  سیدھی راہ پر  گھات لگا کر  ضرور بیٹھوں گا پھر ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی پیچھے سے بھی، دائیں سے بھی اور بائیں سے بھی اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے ۔ العراف 7 : آیات 16 تا 17 ابلیس نے کہا کہ اے اللہ اب جبکہ آپ نے اس شخص  آدم علیہ کو مجھ پر فضیلت دے ہی دی ہے تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دیجئے، میں اس کی اوالد میں سے چند لوگوں کے عالوہ سب کو ضرور اپنے قابو میں کر لوں گا ۔” بنی اسرائیل 17 : آیت   )62  ابلیس نے کہا : اے میرے رب مجھے اس دن تک مہلت دے دیجئے جب لوگ دوبارہ ٹھائے ا جائیں گے ۔ اللہ نے فرمایا : ُ تجھے مہلت دی جاتی ہے۔ اس دن تک جس کا وقت معلوم مقرر  ہے۔ ابلیس نے کہا : آپ کی عزت کی قسم، میں ان سب لوگوں کو بہکا کر رہوں گا۔ سوائے تیرے مخلص بندوں کے ص 38 : آیات 79 تا  83  کی بنی آدم کو ابلیس کی دشمنی پر تنبیہہ : اللہ تعالی نے ابلیس کو قیامت تک کے لئے مہلت دینے کے بعد بنی نوع انسان کو ابلیس کی دشمنی سے آگاہ فرما دیا اور یہ وضاحت کر دی کہ تمہارا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے ، اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرو ، یہ بڑا چلاک اور چھپ کر وار کرنے والا ہے۔ تم اسے اور اس کے چیلوں کو نہیں دیکھ سکتے لیکن وہ تمہیں دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اس نے تمہارے ماں باپ کو دھوکا دے کر جنت کی آرام دہ زندگی سے محروم کروا دیا تھا۔

فرمان الہی ہے :۔

ترجمہ: اللہ نے فرمایا :اے ابلیس  آدم کی اولاد میں سے جو بھی تیری پیروی کریں گے تم سب کی سزا جہنم ہی ہے جو پورا پورا بدلہ ہے اور ان )اوالد آدم میں سے تو جسے بھی اپنی آواز خوشنما الفاظ  سے گمراہ کر سکتا ہے کرلے ، ان پر اپنے سوار اور پیارے بھی دوڑا ، ان کے مال اور اولاد میں بھی اپنا حصہ حاصل کرلے ، ان سے جھوٹے وعدے بھی کرلے اور ان اولاد آدم سے شیطان کے سارے وعدے محض دھوکا ہی ہیں اللہ نے فرمایا  بے شک میرے مخلص بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا اور تمہارا رب  ان مخلص بندوں کی  دست گیری کرنے کے لئے کافی ہے ۔” بنی اسرائیل 17 : آیات 63 تا  65   اوریاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے عالوہ سب نے سجدہ کیا، وہ ابلیس جنات میں سے تھا۔ اس ابلیس( نے اپنے پروردگار کے حکم کی نافرمانی کی تو اے انسانوں کیا تم پھر بھی اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو ؟ حاالنکہ وہ تمہارے دشمن ہیں ۔  آگاہ رہو، ایسے ظالموں کے لئے بہت ہی برا بدلہ ہے ۔ لکہف 18 : آیت )50

:حضرت آدم و حوا کے خالف ابلیس کی چال

جب ابلیس نے یہ دیکھا کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم و حوا کو عزت دیتے ہوئے انہیں جنت میں رہنے کا حکم دے دیا ہے تو حسد کی آگ میں جل گیا اور انسان دشمنی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں جنت سے نکلوانے کے لئے چال چلنے لگا۔ وہ بڑا ہمدرد بن کر حضرت آدم و حوا پیر کے پاس آ کر کہنے لگا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ اس درخت کے قریب جانے سے تمہیں کیوں روکا گیا ہے؟ میں تمہیں ایک راز کی بات بتاتا ہوں۔ اللہ تعالی نے تمہیں اس درخت کے پاس جانے سے اس لئے روکا ہے کہ اگر تم اس کا پھل کھا لو گے تو فرشتے بن جاؤ گے یا پھر ہمیشہ کے لئے جنت کی زندگی پا لو گے۔

فرمان الہی ہے :۔

ترجمہ : تمہارے رب نے تو تم کو اس درخت کا پھل کھانے( سے صرف اس لئے منع کیا ہے کہ تم فرشتے نہ بن جاؤ یا ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے نہ ہو جاؤ ۔” العراف 7 : آیت  )20  شیطان نے ان  آدم  کے دل میں وسوسہ ڈال دیا اور کہا : اے آدم، کیا میں تمہیں ہمیشہ کی زندگی کا درخت اور ایسی بادشاہت نہ بتاؤں جو کبھی نہ ختم ہو ۔ طہ 20 : آیت 120 مزید معلومات کے لئے پڑھئے ترجمہ و تفسیر االنفال 8: آیت 48 اور الحشر 59: : آیات 16 تا 17 حضرت آدم و حوا علیہ اسالم کا ممنوعہ درخت کا پھل کھانا : حضرت آدم و حوا ابلیس کو اپنا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھ کر اس کے بہکاوے میں آگئے اور جس درخت کے پاس جانے سے اللہ رب العزت نے منع کیا تھا اس کے پاس چلے گئے اور جیسے ہی اس درخت کا پھل چکھا تو ان کے جسم پرجنتی لباس فوراً سے اُتر گیا۔

فرمان الہی ہے -:

ترجمہ : ہم نے کہا : اے آدم، یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا کھال دشمن ہے  خیال رکھنا ایسا نہ ہو کہ یہ تم دونوں کو جنت سے نکلوا دے پھر تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ یہاں تو تمہیں آرام ہے، نہ تمہیں بھوک ستاتی ہے ، نہ تم برہنہ ننگے  رہتے ہو ، نہ تمہیں پیاس لگتی ہے اور نہ ہی دھوپ ستاتی ہے ۔ طہ 20 : آیات 117 تا 119  ارا جھوٹی قسم کھا کر کہا کہ میں تو تمہارا اخیر خواہ ہوں اور ر تمہیں تمہیں اچھی ا بات بتا رہا ہوں ۔ شیطان کے قسم کھانے پر حضرت آدم و حوا علیہ اس کے بہکاوے میں آگئے اور اللہ عز وجل سے کئے حضرت آدم اور حوا جنت میں آرام اور سکون سے رہنے لگے اور شیطان انہیں بہکانے کے لئے مسلسل ان کا پیچھا کرتا رہا آخر کار اس نے حضرت آدم و حوا کو بہکانے کے لئے ان کے دل میں وسوسے ڈالنا شروع کر دیئے اور کہنے لگا : اے آدم، کیا میں تمہیں ایسا درخت نہ بتاؤں جسے کھانے کے بعد تم جنت میں ہمیشہ کے لئے رہو گے۔ حضرت آدم و حوا نے اس درخت کا پھل کھانے سے انکار کر دیا۔ شیطان نے اعتماد دالنے کے لئے ہوئے عہد کو بھول کر جس درخت سے اللہ تعالی نے منع فرمایا تھا اس کا پھل کھا لیا۔ حضرت آدم و حوا ہم نے جیسے ہی ممنوعہ درخت کا پھل چکھا تو ان کا جنتی لباس جسم پر سے اتر گیا اور وہ شرم کے مارے اپنے ستر کو چھپانے کے لئے جنت کے درختوں کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے ۔

فرمان الہی ہے :۔

ترجمہ  پھر شیطان نے انہیں اس جنت سے پھسال کر ان دونوں کو وہاں جنت سے نکلوا دیا۔ البقرہ 2 : آیت 36  پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈاال تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں دونوں کے سامنے بے پردہ کر دے اور کہنے لگا : تمہارے رب نے تو تم کو اس درخت سے صرف اس لئے منع کیا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے نہ ہو جاؤ۔ اس )شیطان( نے دونوں کے سامنے

اللہ کی قسم کھائی کہ یقین جانو، میں تم دونوں کا سچا خیر خواہ ہوں۔ چنانچہ اس شیطان نے ان دونوں کو دھوکا دے کر اپنے جال میں پھنس لیا پھر جب ان دونوں نے درخت کا پھل چکھا تو دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے سامنے بے پردہ ہو گئیں اور دونوں اپنی شرمگاہوں کو جنت کے پتوں سے ڈھانپنے لگے اور ان کے رب نے ان کو آواز دی : کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا ؟ اور یہ نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھال دشمن ہے ۔” االعراف 7 : آیات 20 تا 22  مزید تفصیل کے لئے پڑھئے ترجمہ وتفسیر طہ 20 : آیت 121

:حضرت آدم و حوا علیہ اسالم کا جنت سے اخراج

تر گئے اور اللہ جب حضرت آدم و حوا نے ابلیس کے بہکاوے میں آ کر ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا تو ان کے جنتی لباس اُ تار دیا۔ حضرت آدم کو اس بات سے عز وجل نے انہیں زمین پر اترنے کا حکم دے دیا اور ساتھ ہی ابلیس کو بھی زمین پر اُ آگاہ کر دیا کہ جس طرح شیطان نے تمہیں بہکا کر جنت سے نکلوایا ہے اسی طرح یہ دنیا میں بھی تمہیں بہکانے کی بھر پور کوشش کرے گا تا کہ تم دوبارہ جنت میں داخل نہ ہو سکو لہذا اپنے آپ کو اس کی چال سے بچانے کی بھر پور کوشش کرو۔

فرمان الہی ہے :۔

ترجمہ : اللہ نے فرمایا: تم سب اسی حالت میں زمین پر اتر جاؤ ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے اور تمہارے لئے زمین میں رہنے کی جگہ ہے اور ایک مقررہ وقت تک فائدہ اٹھانے کا موقع ہے ۔ االعراف 7 : آیت 24  تر جاؤ ، تم آپس اللہ نے فرمایا : تم دونوں  انسان اور شیطان یہاں جنت سے اُ میں ایک دوسرے کے دشمن ہو ، اب اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے تو جو وہ نہ تو )دنیا میں گمراہ ہو گا اور نہ ہی  آخرت شخص میری ہدایت کی پیروی کرے میں تکلیف اٹھائے گا۔ (طہ 20 : آیت  )123  مزید تفصیل کے لئے پڑھئے ترجمہ و تفسیر البقرہ 2 : آیت 36 رسول اکرم صلی ا نے فرمایا : اللہ تعالی نے جب آدم کو جنت سے زمین پر اتارا تو انہیں دنیا میں جینے کا ہنر بھی سکھا دیا اور جنت کے کچھ پھل بھی عطا فرمائے تھے ۔ مستدرک حاکم عن ابی موس ٰی اشعری  حضرت آدم کا اعتراف اور توبہ : حضرت آدم و حوا علیہ کو اللہ تعالی نے جنت سے نکال کر زمین پر اتارا ۔ زمین پر اترنے کے بعد انہیں جنت اور اس کی راحت وسکون والی زندگی یاد آئی اور انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ فوراً اللہ سبحانہ و تعال ٰی کے حضور توبہ کرنے لگے اور توبہ کے کلمات بھی هللا عز وجل نے انہیں سکھا دیئے تھے۔

فرمان الہی ہے :۔

 ترجمہ : پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لئے تو اساللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی۔ بے شک وہی تو بہ قبول کرنے واال ، بے حد رحم کرنے والا ہے۔ البقرہ 2 : آیت 37

:حضرت آدم و حوا کی اولاد

اللہ تعالی نے آدم و حوا  کو بہت ساری اولاد عطا فرمائی ۔

فرمان الہی ہے : ۔

ترجمہ: اے لوگو ، اپنے رب کے عذاب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان  آدم  سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی  حوا کو پیدا کر کے ان دونوں سے دنیا میں بہت سے مرد اور عورتیں پھیالا دیں ۔ (النساء :4 آیت 1  اور یاد کرو جب آپ کے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکاال اور انہیں خود ان پر گواہ بناتے ہوئے پوچھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا: کیوں نہیں ، ہم سب اس کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہی ہمارے رب ہیں العراف 7: آیت172 ) جب اللہ تعالی نے آدم نام کو پیدا فرمایا تو آپ کی پشت پر ہاتھ پھیرا قیامت تک پیدا ہونے والی ہر جان آپ عیالم کی پشت سے ظاہر ہو گئی اللہ تعالی نے ہر ایک کی آنکھوں کے درمیان نور کی چمک رکھ دی پھر انہیں آپ کو دکھایا۔ آپ نے پوچھا : اے میرے رب ، یہ کون ہیں ؟ اللہ تعالی نے جواب دیا : یہ تمہاری اوالد ہیں۔ آپ کو اپنی اوالد میں سے ایک آدمی ایسا نظر آیا جس کی پیشانی کی چمک آپ کو بہت اچھی لگی۔ آپ نے پوچھا : اے میرے رب ، یہ کون ہے ؟ اللہ تعالی نے جواب دیا : یہ آپ کی اولاد میں سے آخری زمانہ کی قوموں میں سے ایک نبی ہے جس کا نام داؤد ہو گا ۔ آپ نے پوچھا : اے میرے رب، آپ نے اس کی عمر کیا مقرر کی ہے؟ اللہ تعالی نے جواب دیا: 60 سال ۔ آپ نے عرض کیا : اے میرے رب، اسے میری عمر میں سے 40 سال عنایت فرما دیجئے۔ جب آدم علیہ السلام کی مقرر عمر ختم ہوئی تو موت کا فرشتہ ان کی روح قبض کرنے کے لئے آیا۔ آپ نے فرمایا : کیا میری عمر میں سے 40 سال باقی نہیں ہیں ؟ فرشتے نے عرض کیا : آپ نے وہ 40 سال اپنے بیٹے داؤد کو دیئے تھے۔ چونکہ آپ  نے انکار کیا، اس لئے آپ کی اولاد میں بھی انکار کی عادت ہے۔ آپ بھول گئے ، اسی لئے آپ کی اولاد بھی بھول جاتی ہے۔ آپ سے غلطی ہوئی ، اسی لئے آپ  کی اولاد سے بھی غلطی ہوتی ہے۔” ترندی ۔ عن ابی ہریرہ

:حضرت آدم کی اولاد سے توحید الہی کا عہد

حضرت آدم کو پیدا فرمانے کے بعد جب اللہ رب العزت نے آپ  کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو آپ کی تمام اولاد آپ  کی پشت سے ظاہر ہو گئی پھر اللہ عز وجل نے آپ کے سامنے آپ  کی تمام اولاد سے اپنی توحید کا پکا عہد و پیمان لیا۔

:فرمان الہی ہے

 ترجمہ : اور یاد کرو( جب آپ کے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکاال اور انہیں خود ان پر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا: کیوں نہیں ، ہم سب اس کی گواہی دیتے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا  ہم نے یہ عہد اس لئے لیا ہے تا کہ تم لوگ قیامت کے دن یہ نہ کہو کہ ہم تو اس بات سے بالکل بے خبر تھے یا تم یہ کہو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم ان کے بعد ان کی  اولاد ہی تو تھے پھر کیا آپ ہمیں اس فعل کی وجہ سے ہالک کر دیں گے جو پہلےگمراہ لوگوں نے کیا تھا۔ االعراف :7: آیات 172 تا 173

:احادیث رسول اکرم

” قیامت کے دن ایک جہنمی سے کہا جائے گا اگر تیرے پاس پوری دنیا کا مال و دولت ہو تو کیا تو فدیہ کے طور پر جہنم سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے سب مال دے دے گا ؟ وہ کہے گا : جی ہاں ، تب اللہ تعالی فرمائیں گے جب تو آدم پشت میں تھا اس وقت میں نے تجھ سے اس سے بھی آسان چیز کا وعدہ لیا تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا لیکن تو نے پھر بھی شرک کرنے پر ہی اصرار کیا ۔  بخاری ، مسلم عن انس  حضرت ابی بن کعب بھی یہ اللہ تعالی کے اس فرمان العراف 7 : آیات 172 تا 173 کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے تمام بنی آدم کو ان کے باپوں کی پشتوں سے نکالنے کے بعد  جمع کیا اور انہیں جوڑا جوڑا بنایا پھر انہیں صورتیں عطا کیں اور قوت گویائی بھی عطا فرمائی ۔ پس وہ بولنے لگے پھراللہ تعالی نے ان سے  توحید الہی پر قائم رہنے کے لئے بڑا مضبوط عہد و پیمان لیا اور انہیں ان کے نفسوں پر گواہ بنایا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے گواہی دیتے ہوئے کہا : جی ہاں، آپ ہی ہمارے رب ہیں ۔ پھر ہللا عز وجل نے فرمایا : میں ساتوں آسمانوں، ساتوں زمینوں اور تمہارے باپ آدم کو تم پر گواہ بناتا ہوں کہ کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہو کہ ہمیں تو اس کا علم ہی نہیں تھا۔ یاد رکھو ، میرے عالوہ کوئی معبود برحق نہیں اور میرے عالوہ کوئی بھی پروردگار نہیں ، لٰہذا میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں ٹھہرانا ، بے شک میں تمہارے پاس اپنے پیغمبروں کو بھیجتا رہوں گا جو تمہیں میرے ساتھ کئے ہوئے اس عہد و پیمان کو یاد دالتے رہیں گے اور میں تم پر اپنی کتابیں بھی نازل فرماؤں گا۔ سب نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہی ہمارے پروردگار اور حقیقی معبود ہیں، آپ کے عالوہ کوئی بھی ہمارا پروردگار اور معبود نہیں ۔ سب نے اس بات کا اقرار کیا۔ حضرت آدم کو اونچا کر کے سب کو دکھایا گیا۔ آپ نے دیکھا کچھ مالدار ہیں اور کچھ غریب، کچھ خوب صورت ہیں اور کچھ بدصورت ۔ آپ نے عرض کیا: اے میرے پروردگار، آپ نے اپنے بندوں کو ایک جیسا کیوں نہیں بنایا ۔ ہللا رب العزت نے جواب دیا : میں نے چاہا کہ میرا شکر ادا کیا جائے ۔ آپ نے انبیاء علیم کو دیکھا کہ وہ روشن قندیلوں کی طرح نمایاں ہیں۔ ہللا رب العزت نے ان سے بھی رسالت و نبوت کے متعلق خصوصی عہد و پیمان لیا مسند احمد

:انبیاء سے توحید ، رسالت و نبوت سے متعلق عہد

اللہ تعالی نے جب حضرت آدم کی تخلیق مکمل کرنے کے بعد ان کی پشت سے تمام اوالد کو ظاہر کیا تو ان میں قیامت تک مبعوث ہونے والے انبیاء  بھی تھے۔ اللہ عز وجل نے انبیاء سے بھی توحید ، رسالت و نبوت سے متعلق خصوصی عہد لیا۔

:فرمان الہی ہے

 ترجمہ :اے نبی می اییم یاد کریں جب ہم نے تمام انبیاء سے توحید کا عہد لیا اور بالخصوص  آپ  نوح، ابراہیم ، موسی اور مریم کے بیٹے عیسی  سے اور ہم نے ان سب سے بڑا پکا عہد لیا۔ الحزاب 33 : آیت 7) اور وہ وقت یاد کیجئے جب ہللا نے تمام انبیاء سے عہد لیا تھا کہ جب میں تمہیں کتاب و حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول  محمد  آئے جو ان چیزوں کی تصدیق کر رہا ہو جو تمہارے پاس ہیں تو اس رسول پر ضرور ایمان النا اور اس کی ضرور مدد کرنا ۔اللہ نے پوچھا : کیا تم اقرار کرتے ہو اور اس پر میرا عہد قبول کرتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا : جی ہاں ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا : تم گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں پھر اس کے بعد جو بھی اس عبد سے پھر جائیں وہی نا فرمان ہیں ۔ ال عمران : آیات 81 تا  82

:حضرت آدم کے بیٹوں قابیل اور ہابیل کا واقعہ

فرمان الہی ہے :۔

ترجمہ :اے نبی آپ لوگوں کو آدم کے 2 بیٹوں کا سچا واقعہ بھی سنا دیجئے ۔ جب ان دونوں نے اللہ کے لئے قربانی پیش کی ، ان میں سے ایک کی قربانی تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی تو وہ کہنے لگا : میں تجھے قتل کر ڈالوں گا۔ پہلے نے کہا : بالشبہ اللہ تقوی اختیار کرنے والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے ، اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لئے ہرگز اپنا ہاتھ نہ بڑھاؤں گا۔ بے شک میں تو ہللا سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ تو اپنے ذمہ اپنا اور میرا بھی گناہ لے لے اور پھر تو دوزخیوں میں شامل ہو جائے، ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔ آخر کار اس کے برائی کی دعوت دینے والےنفس نے اسے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کر دیا اور اس نے اسے قتل کر ڈاال ۔ پس وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گیا پھر ہللا نے ایک کو ابھیجا جو زمین کھودنے لگا تا کہ اسے دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی الش کیسے دفنائے ۔  یہ دیکھ کر  وہ کہنے لگا، ہائے افسوس، میں اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی الش چھپانے کی تدبیر نکال لیتا پھر وہ بڑا ہی پشیمان اور شرمندہ ہو گیا ۔ المائدہ 5 : آیات 27 ت31 حضرت عبد هللا بن عباس  و دیگر صحابہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت آدم و حوا  کے ہاں اولاد کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کے ہاں ہر بار ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے۔ حضرت آدم  کو یہ حکم تھا کہ ہر لڑکے کی شادی دوسرے لڑکے کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی سے کریں اور دوسرے پیدا ہونے والے لڑکے کی شادی پہلے لڑکے کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی سے کریں۔ تاریخ الطبری حضرت آدم  کے ہاں ایک مرتبہ قابیل اور اس کی بہن پیدا ہوئی اور دوسری مرتبہ ہابیل اور اس کی بہن پیدا ہوئی۔ سابقہ اصول کے مطابق قابیل کی بہن کا نکاح ہابیل سے اور ہابیل کی بہن کا نکاح قابیل سے ہونا تھا۔ اتفاقی طور پر قابیل کی بہن ہابیل کی بہن کی نسبت زیادہ خوبصورت تھی اس لئے قابیل نے چاہا کہ اس کی شادی ہابیل کی بہن کے بجائے خود اپنی ہی بہن سے ہو جائے ۔ حضرت آدم نے قابیل سے کہا کہ اپنی بہن سے ہابیل کو نکاح کرنے دو لیکن قابیل نے انکار کر دیا اور سمجھانے کے باوجود اپنی ہی بہن سے خود نکاح کرنے پر اصرار کیا۔ حضرت آدم نے ان دونوں سے کہا کہ تم اللہ تعالی کی راہ میں بطور نذرانہ قربانیاں پیش کرو جس کی قربانی قبول ہو جائے گی وہی حق پر ہو گا ۔ ہابیل بکریاں پالتا تھا اس نے ایک موٹی تازی بکری قربان کی اور قابیل کھیتی باڑی کرتا تھا اس نے گھٹیا قسم کا اناج اللہ تعالی کی راہ میں پیش کیا۔ دونوں نے اپنی اپنی قربانی میدان میں رکھ دی ، آسمان سے آگ آئی اور ہابیل کی قربانی کو کھا گئی جو اس کی قبولیت کی عالمت تھی۔ قابیل کی قربانی جب قبول نہ ہوئی تو اسے غصہ آیا اور اس نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر ڈاال ۔ جب ہابیل قتل ہو گئے تو قابیل نے کھلے آسمان کے نیچے ان کی الش رکھ دی ، اس لئے کہ اسے دفن کرنے کا طریقہ معلوم نہ تھا۔ آخر کار ہللا تعال ٰی نے 2 کوے بھیجے ۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کو مار دیا پھر چونچ سے گڑھا کھود کر مردہ کوے کو اس میں ڈال کر اوپر سے مٹی ڈال دی۔ قابیل نے جب اپنی آنکھوں سے یہ ماجرا دیکھا تو شرمندہ ہو کر کہنے لگا -: “ ہائے افسوس ، میں اس کوے سے بھی گیا گزرا ہو گیا کہ اپنے بھائی کی الش دفن کرنے کی تدبیر بھی نہ نکال سکا۔” تفسیر ابن کثیر، تفسیر المآئد ہ 5 : آیت )27(

رسول اکرم نے فرمایا :

جتنے بھی لوگ ناحق قتل ہو رہے ہیں ان کا گناہ آدم )علیہ( کے بیٹے )قابیل( کے حصہ میں بھی لکھا جا رہا ہے کیونکہ انسانوں میں قتل کی ریت سب سے پہلے اس )قابیل( نے شروع کی تھی ۔ ) بخاری عن عبد ہللا بن مسعود با ال ( جس نے اسالم میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا پھر اس کے بعد اس )طریقہ ( پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ رائج کرنے والے( کے لئے عمل کرنے والے کے برابر ہی ثواب لکھا جائے گا اور ان کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور جس نے اسالم میں کوئی برا طریقہ رائج کیا پھر اس کے بعد اس طریقہ ( پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ رائج کرنے والے( کے لئے عمل کرنے والے کے برابر ہی گناہ لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہیں کی جائے گی ۔ )مسلم عن جریر بن عبد هللا علی له( حضرت آدم کی وفات : حضرت ابی بن کعب رصلی ہللا فرماتے ہیں : “ جب حضرت آدم کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹوں سے فرمایا: اے میرے بیٹو، میرا جنت کے پھل کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔ بیٹے پھل کی تالش میں نکل پڑے۔ سامنے سے فرشتے آتے نظر آئے جن کے پاس حضرت آدم علینا کا کفن اور خوشبو تھی ۔ فرشتوں نے پوچھا : اے آدم کے بیٹو، تمہیں کس چیز کی تلاش ہے؟ بیٹوں نے جواب دیا : ہمارے والد صاحب کی طبیعت ناساز ہے اور وہ جنت کے پھل کھانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ فرشتوں نے کہا : تم واپس چلے جاؤ کیونکہ تمہارے اولاد فوت ہونے والے ہیں۔ فرشتوں نے آکر ان کی روح قبض کی، ان کو غسل دیا، کفن پہنایا، خوشبو لگائی اور آپ کے لئے لحد  بغلی قبر تیار کی پھر نماز جنازہ ادا کی اور قبر میں رکھ کر اوپر سے مٹی ڈال دی پھر مخاطب ہو کر کہا : اے آدم کے بیٹو ، تمہارے لئے مردوں کو دفن کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ مسند احمد  حضرت آدم کو مکہ مکرمہ میں جبل ابی قبیس پر دفن کیا گیا ۔ تاریخ الطمری “ حضرت آدم کی کل عمر 1000 سال تھی ۔ مسند احمد ۔ عن ابی ہریرہ

To read more stories click here

OurIslam786 is more than just a website; it’s a vibrant online space where Muslims and non-Muslims alike can come together to explore, learn, and appreciate the rich heritage of Islam. We believe in the power of knowledge to bridge gaps, dispel misconceptions, and promote a culture of respect and acceptance.

Sharing Is Caring:

Leave a comment